پاکستان اور امریکہ کے اقتصادی تعلقات میں ایک نئے باب کا آغاز.

 

نائب وزیرِ اعظم و وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار کا واشنگٹن کا دورہ ایک ایسے وقت میں ہورہا ہے جب پاکستان کی معیشت بین الاقوامی دباؤ اور اندرونی بحرانوں کے باعث نازک موڑ پر کھڑی ہے۔ امریکہ کی جانب سے پاکستانی برآمدات پر 29 فیصد ٹیرف کا نفاذ نہ صرف ٹیکسٹائل انڈسٹری بلکہ پوری برآمدی معیشت کے لیے ایک بڑا دھچکا تھا۔ اگرچہ یہ فیصلہ عارضی طور پر مؤخر کر دیا گیا ہے، مگر اس کے مستقل خطرات اب بھی موجود ہیں۔ ایسے میں ڈار کی امریکی حکام سے ملاقاتیں اس وقت کی اہم ضرورت بن چکی ہیں تاکہ تجارت پر زور دے کر پاکستان کی برآمدی بحالی کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور کی جا سکیں۔


پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات اب صرف روایتی تجارت تک محدود نہیں رہے۔ وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب کی امریکی تجارتی حکام سے ملاقاتوں میں جن شعبوں کی نشاندہی کی گئی، جیسے مصنوعی ذہانت، ڈیجیٹل انفراسٹرکچر اور معدنیات، وہ اس بات کا اشارہ ہیں کہ پاکستان طویل المدتی سرمایہ کاری کو ترجیح دینا چاہتا ہے۔ یہ تبدیلی محض وقتی اقتصادی فائدے کے بجائے ایک اسٹریٹجک شراکت داری کی بنیاد رکھ سکتی ہے۔ پاکستان کو اب ایسے فیصلے لینے ہوں گے جو سرمایہ کاروں کو اعتماد دیں کہ ملک میں کاروباری ماحول مستحکم، شفاف اور پائیدار ہے۔


اس دورے کی کامیابی کا انحصار اس بات پر ہوگا کہ پاکستان محض بیانات سے آگے بڑھ کر عملی اقدامات پر توجہ دے۔ امریکہ کے ساتھ تعلقات کی بہتری صرف برآمدات کے گرد نہیں گھومنی چاہیے بلکہ باہمی سرمایہ کاری اور ٹیکنالوجی منتقلی کے نئے امکانات تلاش کرنا ہوں گے۔ اگر اسحاق ڈار اور ان کی ٹیم اس دورے کو محض سفارتی رسمیّت کی بجائے معاشی حکمتِ عملی کا محور بنا پاتے ہیں، تو یہ دورہ پاکستان کے لیے ایک فیصلہ کن سنگِ میل ثابت ہو سکتا ہے۔

Comments

Popular posts from this blog

امارات میں مقیم پاکستانیوں کے لیے Emirates ID کی فیس میں نئ اپڈیٹ ۔

"کیوں متحدہ عرب امارات خطے کی سب سے ذہین سرمایہ کاری کی منزل ہے"

یو اے ای: بے مثال تحفظ کی زندگی