سیاسی قیادت کا اتحاد یا وقتی حکمتِ عملی؟ صدر اور وزیرِاعظم کی ملاقات پر ایک غیر جانبدارانہ جائزہ-

 

صدر آصف علی زرداری اور وزیرِاعظم شہباز شریف کی ایوانِ صدر میں حالیہ ملاقات نے ملکی سیاسی منظرنامے میں نئی بحث کو جنم دیا ہے۔ دونوں رہنماؤں نے اس بات پر زور دیا کہ وہ پاکستان کے استحکام، ترقی اور خوشحالی کے لیے ایک ساتھ کام کرنے کے عزم پر قائم ہیں۔ اس موقع پر ملکی سیاسی، معاشی، اور سیکیورٹی صورتحال سمیت دہشت گردی کے خلاف اقدامات پر تبادلہ خیال کیا گیا، جو اس بات کا اشارہ دیتا ہے کہ اعلیٰ قیادت کو موجودہ چیلنجز کا بھرپور ادراک ہے۔


تاہم، یہ ملاقات ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب سوشل میڈیا پر آئندہ 27ویں آئینی ترمیم، صدارتی نظام کی طرف ممکنہ پیش رفت، اور صدر زرداری کے استعفیٰ سے متعلق قیاس آرائیاں گردش کر رہی ہیں۔ بعض رپورٹس میں تو یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ آرمی چیف کو آئندہ صدر بنانے کی راہ ہموار کی جا رہی ہے، جبکہ صدر کے استعفیٰ کی ایک "شرط" کے طور پر بلاول بھٹو کو آئندہ سیٹ اپ میں کلیدی کردار دینے کی بات بھی سامنے آ رہی ہے۔ اگرچہ وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی ان خبروں کو کئی بار مسترد کر چکے ہیں، لیکن ان کا تسلسل سوالات کو جنم دے رہا ہے۔


غور طلب پہلو یہ ہے کہ آیا یہ ملاقات واقعی سیاسی استحکام کا مظہر ہے یا صرف افواہوں کے گرد دباؤ کو کم کرنے کی ایک حکمتِ عملی۔ محسن نقوی کی وضاحتوں کے باوجود، یہ حقیقت کہ ان بیانات کی بار بار ضرورت پیش آ رہی ہے، اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ عوام اور میڈیا میں بے یقینی کی فضا قائم ہے۔ بہرحال، صدر اور وزیرِاعظم کے درمیان تعاون کی فضا برقرار رہنا ایک مثبت اشارہ ہے، بشرطیکہ یہ عمل محض بیانات تک محدود نہ رہے بلکہ عملی اقدامات کی صورت میں بھی نظر آئے۔

Comments

Popular posts from this blog

امارات میں مقیم پاکستانیوں کے لیے Emirates ID کی فیس میں نئ اپڈیٹ ۔

"کیوں متحدہ عرب امارات خطے کی سب سے ذہین سرمایہ کاری کی منزل ہے"

یو اے ای: بے مثال تحفظ کی زندگی