پاکستان میں یوٹیوب چینلز کی بندش: آزادی اظہار یا ریاستی تحفظ؟

پاکستان میں حالیہ عدالتی فیصلے کے بعد یوٹیوب نے 27 سے زائد یوٹیوب چینلز کو بند کرنے کا انتباہ جاری کیا ہے، جن می سیاسی جماعت پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی)، اس کے سربراہ عمران خان اور حکومت پر تنقید کرنے والے صحافی شامل ہیں۔ اسلام آباد کی ایک عدالت نے قومی سائبر کرائم ایجنسی کی سفارش پر ان چینلز پر "ریاست مخالف مواد" نشر کرنے کا الزام لگایا ہے۔ اس اقدام نے ملک میں آزادی اظہارِ رائے سے متعلق خدشات کو جنم دیا ہے۔


حکومت کا مؤقف ہے کہ سوشل میڈیا کا استعمال "افراتفری پھیلانے" کے لیے نہیں کیا جا سکتا اور ملکی قوانین کے تحت کارروائی کی جا رہی ہے۔ وزیرِ داخلہ طلال چوہدری کے مطابق ان یوٹیوبرز کے خلاف فوجداری مقدمات بھی چلائے جا سکتے ہیں۔ دوسری جانب صحافی اور متاثرہ افراد اسے جمہوری آزادیوں پر حملہ قرار دے رہے ہیں۔ اسد طور، جن کا یوٹیوب چینل بھی نشانے پر ہے، کہتے ہیں کہ یہ کارروائی صرف اُن کے خلاف نہیں بلکہ ان تمام آوازوں کے خلاف ہے جو ریاستی جبر کے خلاف بولتی ہیں۔


اس معاملے نے پاکستان میں سوشل میڈیا اور آزادی صحافت پر جاری کشمکش کو ایک نیا رخ دیا ہے۔ روایتی میڈیا پر دباؤ کے باعث متعدد صحافیوں نے یوٹیوب کو اپنا پلیٹ فارم بنایا، لیکن اب وہ بھی خطرے میں ہیں۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ قانونی عمل کی عدم موجودگی اور بغیر سماعت کے فیصلے جمہوری اصولوں کے منافی ہیں۔ اگرچہ حکومت قومی سلامتی کے تحفظ کا دعویٰ کر رہی ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا آزادی اظہار کی قربانی دے کر حقیقی تحفظ حاصل کیا جا سکتا ہے؟

Comments

Popular posts from this blog

امارات میں مقیم پاکستانیوں کے لیے Emirates ID کی فیس میں نئ اپڈیٹ ۔

"کیوں متحدہ عرب امارات خطے کی سب سے ذہین سرمایہ کاری کی منزل ہے"

یو اے ای: بے مثال تحفظ کی زندگی