اسلام آباد پریس کلب واقعہ اور بڑھتے ہوئے خدشات.
اسلام آباد پریس کلب پر پولیس کے دھاوے اور صحافیوں پر مبینہ تشدد کے بعد پاکستان بھر میں ردعمل سامنے آ رہا ہے۔ انسانی حقوق کمیشن اور صحافی تنظیموں نے اسے آزادی صحافت پر حملہ قرار دیتے ہوئے فوری تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ ایسے واقعات کسی بھی معاشرے میں جمہوری اقدار اور اظہار رائے کی آزادی کے لیے خطرناک سمجھے جاتے ہیں، کیونکہ میڈیا ہمیشہ ریاست اور عوام کے درمیان ایک پل کا کردار ادا کرتا ہے۔
اس واقعے نے اس وقت مزید حساسیت اختیار کر لی ہے جب پاکستان کے زیرانتظام جموں و کشمیر میں عوامی مظاہرے پہلے ہی شدت اختیار کر چکے ہیں۔ عوام کا غصہ اور احتجاجی لہر حکومتی اقدامات پر عدم اعتماد کی عکاسی کرتی ہے۔ ماہرین کے مطابق طاقت کے استعمال سے وقتی طور پر شور تو دبایا جا سکتا ہے لیکن مسائل حل نہیں ہوتے، بلکہ یہ رویہ معاشرتی بے چینی کو مزید ہوا دیتا ہے۔
یہ صورتحال ایک بڑے سوال کو جنم دیتی ہے کہ ریاست اپنے شہریوں کے ساتھ تعلقات کس بنیاد پر استوار کرنا چاہتی ہے۔ اگر حکومت مکالمہ، شفافیت اور جواب دہی کے اصول اپنائے تو نہ صرف صحافی برادری بلکہ عام عوام بھی اعتماد بحال کر سکتے ہیں۔ بصورت دیگر، پریس کلب جیسے واقعات اور احتجاجی تحریکوں کا تسلسل جمہوری عمل کو کمزور کرنے کا باعث بن سکتا ہے، جس کے نتائج طویل المدتی سطح پر معاشرتی اور سیاسی عدم استحکام کی صورت میں ظاہر ہو سکتے ہیں۔
Comments
Post a Comment