پاکستان میں استحکام کی ضرورت احسن اقبال کے بیان کا پس منظر.
وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال کے حالیہ بیان نے پاکستان میں داخلی استحکام اور بیرونی مداخلت کے حوالے سے ایک اہم بحث کو جنم دیا ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ بھارت، "معرکہِ حق" میں شکست کے بعد، پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ان کے مطابق، ملک میں ایک مذہبی گروہ کی اچانک سرگرمی اور انتشار پر مبنی نعروں کا آغاز کسی بیرونی یا اندرونی “فسیلیٹیشن” کی علامت ہو سکتا ہے۔ یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب ملک کو سیاسی تناؤ کے بجائے معاشی بحالی اور امن کی اشد ضرورت ہے۔
احسن اقبال کی جانب سے "فتنۂ خوارج" کے کردار پر زور دینا دراصل انتہا پسندی کے اس پہلو کی نشاندہی کرتا ہے جو داخلی استحکام کے لیے مستقل خطرہ بن چکا ہے۔ پاکستان کے ماضی میں مذہبی جذبات کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے کئی واقعات موجود ہیں، جنہوں نے قومی وحدت کو نقصان پہنچایا۔ ایسے میں ریاستی اداروں اور سیاسی قیادت کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے کہ وہ مذہبی بیانیوں کو تشدد یا انتشار کے بجائے مکالمے اور اصلاح کی سمت موڑیں۔
ماہرین کے مطابق، احسن اقبال کا پیغام دراصل ایک انتباہ بھی ہے اور ایک موقع بھی۔ انتباہ اس لیے کہ بیرونی یا اندرونی سطح پر کوئی بھی غیر ذمہ دارانہ سرگرمی قومی مفاد کے لیے نقصان دہ ہو سکتی ہے، اور موقع اس لیے کہ ملک کی تمام قوتوں کو ایک صفحے پر لا کر ترقی، روزگار، اور امن کے ایجنڈے کو مشترکہ طور پر آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔ پاکستان کے موجودہ حالات میں سب سے بڑی ضرورت انتشار نہیں بلکہ اتفاق اور تدبر کی ہے، تاکہ ملک مستقبل کے چیلنجوں کا سامنا مضبوط بنیادوں پر کر سکے۔
Comments
Post a Comment